سُنی مسلمان

غیر مسلم نمایاں طور پر بے خبر ہیں کہ اکثر مسلمانوں کا ایمان ہے اور کئی اضافی چیزوں کی پیروی کرتے ہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتیں، بلکہ روایات کے مجموعے میں جو احادیث کہلاتی ہیں۔ ایک حدیث کے حاشیے کے مطابق " یہ قوانین مرتب کرتے ہیں کہ نبی پاک کی سنت نے کیا بیان کیا ہے اور یہ قرآن کے ساتھ ساتھ مکمل قانونی قوت رکھتی ہے "۔ ( صحیح مسلم والیم 4 صفحہ 1256 حاشیہ) ۔ سنت کا نامکمل مطلب ہے " روایت" اور سُنی مسلمان ، کل مسلمانوں کا 80 سے 85 فیصد ہیں۔ قرآن کے بعد احادیث سُنی اسلام میں سب سے اعلیٰ اختیار ہے۔

سارے اسلام کو سمجھنے کے لیے، سُنی اسلام اور دوسری اقسام کے درمیان فرق کو دیکھنا اہم ہے۔ یہ تقسیم سنجیدہ ہو سکتی ہے ۔ مثلاً، مصر اور انڈونیشیا میں مسلمان نہ صرف آج گرجا  گھروں  کو جلا رہے ہیں ، بلکہ سوڈان میں قدامت پسند مسلمانوں نے دوسرے مسلمانوں کی مساجد جلا دیں۔ تاریخی طور پر، سُنیوں، شیعوں اور دیگر کے درمیان ابتدائی لڑائیاں بہت خونی تھیں۔

احادیث کے مستند مجموعے

  بخاری نے ( 810-870 م، 256 مابعد ہجری) تقریباً 7،275  احادیث ( 3000 سے 4000 آزاد معقولات ہیں )  اکٹھی کیں۔ ( 300،000 میں تقریباً وہ جانتا تھا) جو کہ تقریباً عالمی طور پر پہچانی جاتی  تھیں کہ " صرف قرآن کے بعد مستند" ۔  بخاری وسطیٰ میں ایک قصبے بخارا کا عرف عام ہے ۔ اس مجموعےکی تمام احادیث حتمیٰ دعویٰ شدہ وسیلہ ہیں ۔ خاص طور پر وہ یہی کہتے ہوئے بہت سے وسائل دیتا ہے بخاری محمد کے بہت سے مبینہ معجزات دیتا ہے، اگرچہ قرآن کہتا ہے کہ محمد نے کوئی دوسرے معجزات نہیں کیے ۔

2۔ صحیح مسلم  مصنف امام مسلم ( 817-875 م 261 مابعد ہجری) دوسرا بہت مستند مجموعہ ہے جس میں ( 7،190 احادیث ہیں ( 4،000آزاد معقولات)۔  وہ بخاری سے قدرے مختلف ہے۔ اوہ ہو سکتا ہے ایک ہی روایت 6، 10 یا زیادہ دفعہ دہراتا ہے، ایک کے بعد دوسرا، لفظوں کے معمولی فرق، معقولے کے لیے دعویٰ شدہ مختلف وسائل کی بنیاد پر۔ صحیح مسلم قرآن کی ایک گمشدہ سورۃ سے ایک اقتباس دیتی ہے۔ یہ محمد کے کئی مبینہ معجزات بھی دیتی ہے، اگرچہ قرآن کہتا ہے کہ محمد نے کوئی دیگر معجزات نہیں کیے۔

3۔ ابوداؤد  ایسدجستانی ( 817-888م 275 مابعد ہجری) احادیث کا تیسرا بہت مستند مجموعہ  ہے۔ بعد میں اس نے 864/5 م 241 مابعد ہجری میں  اپنا مجموعہ ختم کیا، جس نے اسے منظور کر لیا۔ اس نے 500،000 میں سے 4،800 احادیث اکٹھی کیں۔ اُسکا اصول تھا کہ " راوی قابل اعتماد خیال کیے جاتے تھے ان کو غیر معتبر ٹھہرانے کے لیے کوئی باقاعدہ ثبوت نہیں "۔

 ابو عیسیٰ محمد  بن عیسیٰ بن سورا  الترمذی ( 825-892 م  209-279 ما بعد ہجری)، ابوداؤد کا ایک شاگرد اسکا چوتھا اعلیٰ احادیث کا مجموعہ ہے، جسے جمی کہا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً  3،956 احادیث  ہیں۔ بخاری کا یہ شاگرد ترمذی کہلاتا تھا کیونکہ دریائے آکس پر واقع ترمذ گاؤں کے قریب پیدا ہوا تھا۔ انجمن دور کرنے کے لیے ، وہاں ایک مشہور صوفی عارف تھا اس کا عرف عام بھی ترمذی تھا، لیکن وہ اس سے متعلقہ نہیں ہے۔

5۔ سُنن نِساء ( باانِساء) ( 830-915 م  215-303 ما بعد ہجری)  دیگر کی نسبت بعد میں، جس میں 5،764 احادیث تھیں جو سانڈ  کہلاتی ہیں یہ کم معتبر ہیں۔

6۔ ابن ماجہ ( 824-886/887 م    273 ما بعد ہجری)  اس میں بھی 4،341 احادیث کا مجموعہ ہے، لیکن یہ پہلے چار کی نسبت معتبر نہیں ۔ یہ چھ مجموعے اکٹھے شیعہ سِتا کہلاتے ہیں۔ ۔ ان ابتدائی چھ مجموعوں کے علاوہ دیگر ہیں۔ کچھ سُنی ساتویں معتبر حدیث کے مجموعے کو خیال کرتے ہیں۔  موتاہ ملک۔  دوسری سُنی احادیث یہ ہیں: سُنن الدیرمی، مستند آف الحمائدی، سنن الدرقوطنی اور مستند احمد ابن حنبل۔

یحیٰ بن شرف الدین  النّواوی  ( 1278 م میں وفات پائی) کی 42 روایات تھیں جو" چالیس " کہلاتی تھیں۔ یہ تمام  دنیا کے بچوں کو یاد کروائی جاتی ہیں ۔ مفروضے کے طور پر محمد نے کہا کہ جو کوئی ان روایات کو جانتا ہے اللہ اُسے آخری دن ماہرین قانوں اور عالموں فاضلوں کی مجلس میں سر بلند کرے گا۔

ریاض العالحین ، امام ابو ذکریاہ یحیٰ بن شرف النواوی کی  بہت بعد کی 2،000 منتخب احادیث کا مجموعہ ہے ( 1233-1277/9 م) اس  نے بخاری پر ایک تفسیر لکھی اور صحیح مسلم کا مطالعہ کیا۔ دی انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں ذکر ہے کہ نواوی نے کہا کچھ روایات بے بنیاد اعلیٰ روایات کی وجہ سے متروک تھیں جو کبھی تحریر نہیں ہوئیں۔  

فقہ النسّہ ( 1985-1992) میں ایک بہت جدید اور باقاعدہ مجموعہ ہے جس کے میرے پاس 5 والیم ہیں۔

یہاں بہت سے صفحات ہیں : احادیث فی عنوان

فقہ اُلسنہ

صحیح مسلم

بخاری

تاکید

 

409: 73

546: 301

کاروباری رقم

 

42: 248

98: 179

لباس ، نقاب

38

55: 286

61: 111

روزہ

 

15: 86

170: 281

خوراک ، مشروب

95

0: 0

84: 149

جنازے

12

22: 135

82: 502

شفا، مریض

 

90: 377

200: 262

شادی ، طلاق

6

33: 158

21: 37

حیض

 

127: 157

274: 431

اشخاص کے درجات

136

144: 584

185: 324

حج

288

263: 1505

433: 815

دعا، مکانیات

 

48: 173

70: 84

سزا، عدالت

105

57: 227

69: 105

محصول اور زکواۃ

 

239: 912

982: 1234

تعلیم ، قرآن

 

69: 181

650: 926

جنگ، جہاد، مال غنیمت

764

1557: 7190

4705: 7275

میزان

98 فیصد

83 فیصد، 83 فیصد

85 فیصد، 85 فیصد

فیصد

 

شیعہ حضرات شاید غور کریں کہ جبکہ احادیث براہ راست شیعہ اسلام کو جھوٹا ثابت کرتی ہیں( علی جانیشن نہیں، کوئی خاص تعلیم نہیں، وغیرہ) احادیث صرف محمد کی وفات کے بعد دو صدیوں  سے زیادہ میں اکٹھی کی گئیں۔

احادیث کی اہمیت

" حدیث کا یہ حصہ واضح طور  پر حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حدیث کو صحیح سمجھنے کے لیے کنجی ہے، کیونکہ وحی ہو لے جانے والا، نبی پاک بہترین لائق بنایا گیا، اور اس لیے آسمانی اختیار ملا کہ قرآن کو تشریح اور تفسیر کرے۔ ( صحیح مسلم والیم 1 صفحہ 72 حاشیہ)

درحقیقت، ایک حدیث اشارہ کرتی ہے کہ محمد  خود  احادیث کو جانتا تھا! بخاری والیم 1 کتاب 3 سبق 34   نمبر 98 صفحہ 79 کہتا ہے " میں [محمد]خیال رکھتا تھا کہ کوئی مجھ سے اس کے متعلق آپکے [ ابوہریرہ] سامنے نہیں پوچھے گا جیسے آپکی خواہش ہے کہ احادیث کو سیکھیں" ۔ ہو سکتا ہے یہاں محمد نے نبوت کرنے کا معجزہ کیا ہو۔

ابوہریرا کی یاد

 " ابوہریرہ کا بیان ہے؛  میں نے کہا ، اے اللہ کے رسول! میں نے آپ سے بہت سی باتیں سُنی ہیں لیکن ان کو بھول گیا ۔ اس نے کہا، اپنی چادر بچھاؤ۔  میں نے اپنی چادر بچھائی اور اس نے اپنی دونوں ہاتھوں کو ایسے حرکت دی جیسے کوئی چیز اٹھا رہے ہوں اور انہیں چادر میں خالی کر دیا اور کہا اسے اکٹھی کر لو ۔ میں  نے اُسے اپنے جسم کے گرد لپیٹ لیا، اور اس کے بعد میں ایک بھی حدیث نہیں بھولا"۔ بخاری والیم 4 کتاب 56 سبق 27 نمبر 841 صفحہ 538۔ بخاری والیم 9 کتاب 12 سبق 22 نمبر 452 صفحہ 332۔ صحیح مسلم والیم 4 نمبر 6038-6085 صفحہ 1329-1330 کو بھی دیکھیں۔

متضاد حوالہ جات

 ایک طرح سے، احادیث محمد کی وفات کے بعد 200 سال بعد مرتب کی  گئیں۔ دوسری طرح سے مختلف مجموعے ایک دوسرے پر متضاد حولہ جات کے طور پر عمل کرتے ہیں اور زیادہ یا کم  آزاد ہیں ۰ سوائے ترمذی کے جو بخاری  کے تحت مطالعہ ہوئی) ۔ مجموعی طور پر، محمد کے چار ابتدائی سوانح نگار ہیں جنھوں نے قدرے حدیث کے مرتبیں کی نسبت پہلے لکھا۔

الواحدی ( 823 م میں مرا)

ابن سعد ( 845 م میں مرا)

ابن اسحاق ( 767 م میں مرا)

ابن جیر الطبری ( بعد میں زندہ رہا    923 م میں مرا)

یہ بطور سدِ باب کام سر انجام دیتی ہیں۔ کچھ ہو سکتا ہے خیال کرتے ہوں ابوہریرہ کی یاد داشت صرف حدیث کو تیار کرتی ہے۔ کئی دوسروں کی طرح عالمی طور پر اسے تسلیم کیا۔ پس نکتہ یہ نہیں کہ آیا کہ کوئی حدیث مرتب کرنیوالا یا سوانح نگار کچھ تیار کرے، لیکن قدرے کیا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی جعلی حدیث اصلی ہے۔ سُنی مسلمان خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ احادیث میں چھوٹی غلطیاں ہوں، کیونکہ الفاظ مختلف ہیں۔ تاہم، وہ یقین نہیں کرتے کہ چھوٹی غلطیاں جو احادیث کی تعلیم میں ناجائز گھس آتی ہیں۔ کچھ احادیث متروک تھیں، صحیح مسلم والیم 1 نمبر 682 صفحہ 195-197 میں عنوانات کے مطابق۔

کچھ ابتدائی سُنی مدراس

 العوزی (774 م میں فوت ہو گیا) جائز احادیث پر زندہ روایت پر زور دیا۔ اسکے مدرسوں کو مالکیتیوں نے ہٹا دیا تھا۔

تھوائریا ، کو سفیان التھوری نے شروع کیا ( 716-778 م) احادیث پر زندہ روایت کو زور دیا۔ ان کے پاس دو احادیث کے مجموعے تھے جو اب گم ہو گئے ہیں۔ تھوائریا کو ان کے دشمن حنافیوں نے ہٹا دیا۔

متالذیتی  کی واسل ابن اتا نے بنیاد رکھی۔ انہوں نے بہت وجہ بتائی ۔ خدا کی خصوصیات خدا کے ساتھ موجود نہیں  ہیں۔ انہو نے خدا کے بارے مذہب کی تشبیہ بیان کی۔ متالذیتیوں نے کہا کہ قرآن تخلیق کیا گیا اور انہوں نے انسانی ذمہ داری پر زور دیا۔ وہ احادیث کے مجموعے تھے ( اسکو یاد رکھیں احادیث کے ذریعے بخاری اور دیگر سے پہلے چھانٹنا ہے)۔ متالذیتی 849 م میں شروع کی حمایت سے باہر تھے۔

اشاری ( 873-935 م )  ایک بنیادی متالذیتی تھا، سُنی سکولوں  منطق کی ترقی میں مرکزی کردار تھا۔

زہریہ/ داودیہ " آزاد خیال " داؤد خلف نے شروع کیا ( 882 م میں مرا) ۔ انہوں نے انسانی مباحثو ں کو  رد کر دیا، اگرچہ انہوں نے مطابقت کو قبول کر لیا تھا۔

کدارتی  نے کہا انسان اپنے کاموں پر قابو پانے کی طاقت رکھتا ہے بمقابلہ تقدیر کے۔ ایک ابتدائی رہنما، مالعدالجہانی 699 م میں اپنی تعلیم کی وجہ سے قتل کر دیا گیا۔

مرجیٹی ( ملتوی کرنے والا)  نے زور دیا کہ کسی کی بھی عدالت نہیں ہوگی حتیٰ کہ بد عنوانوں اُمیاد حکمرانوں کی بھی۔

جہزیٹی  یہ متالذیتی فرقہ تھے جسے ابو عثمان، عمر ابن بحرالجہز نے شروع کیا  ( ڈی 1869 ) جاہز کا مطلب  ہے " انسان اپنی نظر  میں نمایاں شاگردوں کے ساتھ" ۔

دیگر قرآن کے ابتدائی تبصر نگار ابن الخوزی تھے ( ڈی 598 ما بعد ہجری) اور ابن جاہز  ( ڈی 852 ما بعد ہجری )۔

آج بڑے سُنی مدارس

حنیفی/ حنافی  مدرسہ ابو حنیفہ نے شروع کیا  (150/767 م میں مرا) اسے باقاعدہ طور پر اسکے دو شاگردوں ابو یوسف ( 797 م میں مرا) اور محمد الشائبانی ( 805 م میں مرا) نے شروع کیا ۔ عباسی اور عثمانی عام طور پر حنیفیوں کی پیروی کرتے تھے، یہ آجکل بہت ہر دلعزیز ہے۔

مَلکی  مدرسہ ملک ابن انس نے شروع کیا ( 709/715-179/795 م) وہ آجکل افریقہ میں  ہیں۔

 حنبلی  چھوٹا مدرسہ ہے۔ ان کو بہت قدامت پسند احمد حنبل نے شروع کیا ( 855 م میں مرا) ۔ ان کی تشریحات عام طور پر بہت ظاہری ہیں۔ اسلام دوسرا یڈیشن صفحہ 131، کے مطابق وہ متالذیتیوں کے بالکل مخالف تھے جو خدا کے انصاف پر  زور دیتے تھے اسکی ہر جا موجودگی کے لیے ۔

شفائتی  آجکل زیادہ تر انڈونیشا میں ہیں، جنھیں الشفیع نے شروع کیا ( 819/820 م  میں مرا)، جو ملکی مدرسہ سے آیا۔ اس نے اختیار کی چار بنیادوں پر زور دیا: قرآن، احادیث کی روایات ( سُنت) اتفاق رائے ( اجمہ) تمام مسلمانوں نے قبول کر لی، اور آخر کاتر مطابقت / اصلی خیال ( اجتہاد اور قیاس) خدا سے رہنمائی مانگنے کے متعلق کوئی ذکر نہیں ۔ بعد میں دیگر مدراس نے بھی ان بنیادوں کو تسلیم کر لیا۔ محمد نے مبینہ طور پر کہا، " میرے لوگ غلطی  پر کبھی متفق نہیں ہوں گے"۔ پس جو بھی ہو تمام جس پر متفق ہوں سچ ہی ہے۔

فریسی یا نہیں

سُنی مسلمان یاد کر ستے ہیں کہ یسوع کے زمانے میں ایک فریسی جو شریعت کی ہر ایک  تفصیل سے بڑا لگاؤ رکھتا تھا، لیکن خدا کے ساتھ ایک محبت کے رشتے کو نظر انداز کرتا تھا۔ اس خیال کو صحیح مسلم والیم 3 صفحہ 1116 حاشیہ 5031 کے انگریزی ترجمہ میں ذکر کیا گیا ہے اور رد کیا گیا ہے۔  لیکن آپ کیا سوچتے ہیں ؟ " انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے تین دفعہ سانس لیا ( برتن سے باہر) پانی پیتے وقت  اور کہا زیادہ پیاس کو  ٹھنڈا کرنے ، صحتمند اور زیادہ صحت بخش ہے۔ انس نے کہا: پس میں نے بھی پانی پیتے وقت تین دفعہ سانس لیا"۔ صحیح مسلم والیم 3 نمبر 5030 صفحہ 1118۔

" ابن عباس  نے رپورٹ دی رسول اللہ کہہ رہے تھے : جب آپ میں سے کوئی کھانا کھائے تو اس وقت اسے اپنے ہاتھ صاف نہیں کرنے چاہیں جب تک وہ خود یا کوئی دوسرا اس کے ہاتھ نہ چاٹے "۔ صحیح مسلم والیم 3 نمبر 5037 صفحہ 1119۔

" ابن عباس سے ایک آدمی کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا جب وہ دعا مانگ رہا تھا [ اپنی نماز ادا  کرنا] ، اور اس نے کہا ، " یہ وفادار قربانی ہے۔ انس ابن ملک کہتا ہے ، یہ التجا کرنا مجاہد قرار  رکھتا ہے ۔ یہ کام شیطان کو روکتا ہے۔ شفیہ کے مطابق ، کوئی صرف ایک دفعہ انگلی کا اشارہ کرتا ہے جب اللہ کے سوا کہا جائے ، اس بیان کی گواہی میں۔ حنیفیہ بیان کے حصے کے انکار میں انگلی اٹھاتے ہیں ( کوئی خدا نہیں ) اور حصے کی تصدیق کے دوران اسے واپس کر لیتے ہیں ( اللہ کے سوا)۔ مَلکی بائیں جانب انگلی کو حرکت دیتے ہیں، جیسے اللہ کی توحید کے انعکاس کے طور  پر، اور وہ اسے حرکت  نہیں دیتے " فِقہ الُسنہ والیم 1 صفحہ 158۔

پہلے خُلفاء

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ محمد نے کہا کہ  محمد کے مرنے کے بعد  وہ خُلفاء کی پیروی  کرتے ہیں۔ ابن ماجہ والیم 4 نمبر 2871 صفحہ 203۔

1۔ ابو بکر 632/8/6  سے 634 م تک اسکی پر امن وفات 634 م تک خلیفہ تھا۔ وہ محمد کی بیوی عائشہ کا  باپ تھا۔ اس نے اسلام سے بہت سے جاسوسوں کو سزا دی۔

2۔ عمر ابن خطاب 581 م میں  پیدا ہوا۔ 634 م سے اسکے قتل 644 تک خلیفہ رہا ۔ ایک فارسی غلام نے ایک زہریلے خنجر سے اسے قتل کیا۔ عمر نے ایک دفعہ محمد کو پیش کش کی کہ اسکی بیٹی حفصہ کا سر کاٹ دے جو محمد کی بیویوں میں سے ایک تھی ۔ عمر نے 635-637 م  میں شام کو فتح  کر لیا۔ فارس کو 637 م میں اور 639-642 م میں مصر کو فتح کیا۔ وہ اس کہاوت کے لیے مشہور تھا کہ" خواتین کو پڑھنے لکھنے سے روکو! کہیں کہ یہ اُن موجی طریقے نہیں"۔

3۔ عثمان بن افان  644 م سے اسکے قتل 656 م تک خلیفہ رہا۔ جب ایک باغی مسلمان فوج نے مدینہ پر حملہ کر دیا۔ 655 م میں کوفہ میں اسکے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔ اس نے قرآن کو " معیار کے مطابق " دوبارہ جاری کیا۔

4۔ علی ابن ابو/ ابی طالب ( 600 م میں پیدا ہوا اور 656  م میں  خلیفہ  بنا اور 661 م میں قتل کیا گیا)۔ جب علی خلیفہ بنا تو اس نے عائشہ کو پکڑ لیا جب اس نے ایک بغاوت کو کچل دیا اور اونٹوں کی جنگ میں 3000 کو کچل دیا،     اور جنرل طلحہ اور زبیر کو مار دیا۔ کوفہ اس کا دارلحکومت تھا۔ فاطمہ کے  مرنے کے بعد ، علی کی 8 بیویاں اور 33 بچے  تھے۔

5۔ معاویہ I، عثمان کا چچا زاد ، 661 م سے پہلے خلیفہ بنا، اس کے بعد علی خلاف کا حافظ تھا۔ معاویہ نے اپنے چچا زاد کی خونی قمیض کا جھنڈا یہ کہتے ہوئے اٹھایا، علی نے مکار کے لیے  قاتل کو لانے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا۔ جنگ سفین کے موقع  پر جو دریائے فرات کے قریب 667/7 میں علی کی افواج جیت رہی تھیں جب معاویہ کے جنگجووں نے اپنے نیزوں پر قرآن کے صفحات رکھے اور کہا مسلمان آپس میں نہ لڑیں۔ ابو موسیٰ ثالثی کرنے والا علی نے پکڑ لیا اور عامر بن العاس معاویہ کا ثالث تھا۔ عامر نے ابو موسیٰ کو اُکسایا  کہ امن کے متعلقہ خلیفہ نہیں ہونا چاہیے۔  پس دونوں معزول ہو گئے اور پھر عامر نے معاویہ کو خلیفہ بنا دیا!خوار جتیوں نے کوشش کی اور معاویہ اور علی کو قتل کرنے میں ناکام ہو گئے لیکن ان کو 24 جنوری 661 م میں علی پر ایک زہریلے خنجر سے غصہ آ گیا۔

6۔ یزید I  ( بد عنوان) ( 60/680-64/683 م) ( یا 683-686 م)  کچھ بطور شرعی قانون نہیں تسلیم کرتے ۔

7۔ عبدالمک  683-705 م عبداللہ بن زبیر کے بغاوت کو زیر کر دیا۔  ( عائشہ کے باغیوں میں سے ایک کا بیٹا) 683 م میں مکہ کو تباہ کرتے ہوئے۔ کعبہ میں آگ لگ گئی اور متبرک پتھر تباہ ہو گیا ۔ اس نے عربی کو 696 م میں سرکاری زبان بنایا۔

عباسیوں نے 747-75 م میں ابو العباس السفا کے تحت امیادیوں کو نکال دیا۔ ( السفا کا مطلب ہے خون بہانے والا) ہراُمیادی وارث عبدالرّحمٰن کے سوا قتل کر دیا گیا، جو سپین بھاگ گیا۔

علی کے پاس کوئی مخصوص علم نہیں تھا

 بخاری حدیث والیم 9 کتاب 83 سبق 31 نمبر 50 صفحہ 37-38 ابو جو حیفہ سے روایت ہے: میں نے علی سے پوچھا، کیا اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی آسمانی علم بھی ہے جو قرآن میں ہے؟ یا جب اُیوئنا نے ایک دفعہ کہا، جو لوگوں کے پاس ہے اس سے الگ؟ علی نے کہا، اسکی قسم جو دانوں کو اگاتا ہے  اور روح کو پیدا کرتا ہے جو کچھ قرآن میں ہے ہم اسکے سوا کچھ نہیں رکھتے اور جو قابلیت اللہ کی کتاب  میں ہے جو کتاب اس ( اللہ) نے انسان کو بخش دی،  اس کے ساتھ جو اس کاغذ کی تہہ پر لکھا ہے۔ میں نے پوچھا، اس کاغذ پر کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، قانونی دستور العمل کی دِیاّ ( خون کی قیمت) اور ( تاوان)  جو قیدیوں کو چھڑانے کے لیے اور عداوت جو کسی مسلمان کو قِساس میں قتل نہیں کرنا چاہیے  ( سزا کے برابر) جو کسی کافر کو قتل کرنے کے لیے ( غیر ایماندا ر کو) " [ " کوئی بھی آسمانی علم" اصلی گرائمر ہے] بخاری والیم 5 کتاب 59 سبق 81 نمبر 736 صفحہ 525 کے مطابق، علی محمد کا جان نشین نہیں تھا۔

تمام سُنی عمل ساری احادیث نہیں

اگر کوئی سُنی مسلمان مغرب میں یکساں طور پر احادیث  کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو دیگر چیزوں کی انہیں پیروی کرنا پڑے گی۔تمام مسلمان عورتوں کے لیے پردہ ضروری ہے  صحیح مسلم والیم 2 نمبر 2789 صفحہ 606-607۔ اگرچہ غلام لڑکیوں کے لیے پردہ ضروری نہیں۔ صحیح مسلم والیم 2 نمبر 3325-3328 صفحہ 721-722۔ مسلمانوں کو شراب ، بُت اور  سُوا ر کا گوشت بیچنا منع ہے۔ صحیح مسلم والیم 3  نمبر 3840 صفحہ 828-830۔ یہ قیاساً ایک سٹور میں کام کرنے سے باز رکھے گا جہاں آپ الکوحل، قیمہ سے بھری آنت وغیرہ فروخت کرتے ہو۔

صحیح مسلم کہتی ہے کہ مسلمانوں میں شطرنج کھیلنے کا کوئی تصور نہیں ( والیم 4 کتاب 25 نمبر 5612 صفحہ 1222) مسلمان مرد ریشم نہیں پہن سکتے ( والیم 4 نمبر 6038 صفحہ 1314)، جیسے ریشمی ٹائی، یا پیلے کپڑے پہننا ( والیم 3  نمبر 5173-5178 صفحہ 1146)۔ ابوداؤد والیم 3 نمبر 3714 اور حاشیہ 3168 صفحہ 1053؛ والیم 1 حاشیہ 535 صفحہ 277 بھی کہتا ہے مرد پیلے کپڑے نہیں پہن سکتا بمطابق ترمذی کی شمائل سبق 46 نمبر 4۔ جب خالد بن سعید ریشمی قبا  پہنے مکہ آیا انہوں نے اسے پھاڑ دیا۔ الطبری والیم 11 صفحہ 75۔تمام مسلمان سونے یا چاندی کے برتنوں میں پی نہیں سکتے۔ ابوداؤد والیم 3 نمبر 3687 صفحہ 1047 کے مطابق قسمت آزمائی کی کھیلیں منع  ہیں۔ بخاری والیم 7 کتاب 62 سبق 95 نمبر 133 صفحہ 101  کہتی ہے کہ عورتوں کو وگ ( مصنوعی بالوں کی ٹوپی) یا مصنوعی بال لگانا منع ہے۔ لوگوں یا جانوروں کی تصاویر منع ہے بمطابق بخاری والیم 4 کتاب 54 سبق 6 نمبر 447-450 صفحہ 297-299۔ تاہم، محمد نے جنگ کے دوران ریشمی کمخواب پہنی۔ ابن ماجہ والیم 4 نمبر 2819 صفحہ 174 ؛ ابوداؤد والیم 3 نمبر 4920 صفحہ 1375 کہتی ہے مسلمانوں کو تختہ نرد کھیلنا منع ہے۔

ابتدائی روایات کیا ہیں؟

احادیث کے سُنی تبصرہ نگار زور دیتے ہیں کہ قرآن بذات خود کافی نہیں۔ معانی جاننے کے لیے احادیث کی تشریح ضروری ہے۔ تاہم، سُنی حقیقتاً   روایت کو رد کرتے ہیں، مُلاہ محمد باکر مجلسی ( 1627-1698 م) نے ایک بنایا ۔ سُنی اگرچہ اپنی احادیث کے مجموعات استعمال کرتے ہیں اور سُنی زیادہ قدیم ہیں، صرف محمد کے دو صدیاں بعد۔

لیکن وہ ابتدائی روایات کو کیوں رد کرتے ہیں جو بائبل سے اتفاق کرتی ہیں۔ تقریباً97/98 م سے بہت سی مسیحی روایات محفوظ ہیں جو بائبل کی قابل اعتبار روایات ہیں۔ ابتدائی کلیسیائی بانیوں نے لمبا چوڑا لکھا ، اور وہ نوشتوں تحریر کرنا پسند کرتے تھے۔  یسوع کی روایات کا بھی کیوں مطالعہ نہیں کیا جاتا؟ اس مسئلہ کے لیے، سُنی کیوں بائبل کی قابل اعتبار حالت رد کرتے ہیں، جب ہمارے پاس بائبل کے 100 م سے مسودات محفوظ ہیں۔ 125-175 م اور ایک حصہ 117-138 م سے ہے۔ کئی مسلمان بائبل کے مسودات کے ثبوتوں  سے باخبر نہیں ہیں۔ تم مسلمان عالموں سے دو وجوہات سنتے ہو مسوداتی تغیرات اور بیانات میں اختلافات۔ ان دونوں سوالات کے مسیحی جوابات کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے یہ نام دیا ہے ۔

مسوداتی تغیرات

 ہم نئے عہد نامے میں ہر لفظ کے تقریباً 97.3 فیصد سے پر یقین ہیں۔ اکثر اختلافات ہجوں، محاروں کے ہیں اور ان میں کوئی بھی مسیحی عقائد کو متاثر نہیں کرتا۔ سب سے لمبے مسوداتی تغیرات میں سے دو مرقس کا آخر اور ایک زانیہ عورت کو  معاف کرنے کی یسوع کی کہانی ہے۔ جبکہ دونوں غالباً اصل بائبل کا ایک حصہ ہیں یہاں، یہ نکتہ نہیں ہے ۔ یہ عبارت مسیحی عقائد کو متاثر نہیں کرتی ہیں، اور ہم کو اس کا مسلمان صورتحال سے موازنہ کرنا چاہیے۔ قرآن میں ایک سورۃ ہے جو گم ہو گئی، بمطابق صحیح مسلم والیم 2 نمبر 2286 صفحہ 500-501۔

بخاری احادیث تحریری  شہادت مہیا کر رہی ہیں کہ قرآنی آیات گم ہیں بخاری والیم 4 کتاب 52 سبق 9 نمبر 57 صفحہ 45؛ والیم 4 کتاب 52 سبق 12 نمبر 62 صفحہ 48؛ والیم 4 کتاب 52 سبق 19 نمبر 69 صفحہ 53؛ والیم 6 کتاب 61 سبق 3 نمبر 510، 511 صفحہ 479-480۔

 قرآن کے مختلف تراجم ہیں،دیگر کی نسبت، کچھ میں دو سورۃ مزید ہیں۔ خلیفہ عثمان نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کوشش کی ہر ایک کو حکم کیا کہ اپنے اپنے قرآن کو غور سے پڑھیں اور اس نے ایک معیاری ترجمہ جاری کر دیا۔

پس قرآن اور بائبل دونوں میں مسوداتی مسائل ہیں، بائبل میں مسوداتی  تغیرات ہیں، وہاں عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں اور ہم تغیرات  کو جانتے ہیں، جبکہ قرآن کے تغیرات بھی ہیں جو عقیدہ کر تبدیل کر دیتے ہیں ، ایک گمشدہ ٹکڑا، اسکے ساتھ ساتھ تغیرات بھی۔

بیانات میں اختلافات

انجیل کے مصنفین یسوع کی زندگی کے چار بیان دیتے ہیں۔ ہر مصنف اضافی تفصیل مہیا کرتا ہےجو دوسرا مصنف نہیں دیتا، اور ان کے مختلف الفاظ پر زور ہیں۔ مثال کے طور پر، ہمارا یقین ہے کہ متی نے بنیادی طور پر یہودی لوگوں کے لیے لکھا، جب کہ لوقا نے زیادہ تر غیر یہودیوں کے لیے لکھا۔ لیکن وہ مختلف نہیں ہیں۔ اور اس ویب پر مکمل ہم آہنگی دیکھ سکتے ہو۔

www.MuslimHope,com/BibleAnswers/gospel.htm.

احادیث کے مختلف مضموعات میں بھی بہت سی چھوٹی تفصیلات ہیں۔ اسطرح یہاں محمد کے چار سوانح نگار ہیں۔ ان کی مختلف تفصیلات ہیں، اور اسکے متعلق کوئی بھی حیرت انگیز یا بدنام کرنیوالا کچھ نہیں۔ اگرچہ ایک چیز پر تمام متفق ہیں وہ یہ ہے کہ محمد اصل میں سورۃ 53 میں آیات رکھتا تھا یہ کہتے ہوئے اللہ کی بیٹیوں ( بتوں) کی شفاعت پر اُمید تھی۔ اس کے برعکس، کسی انجیلی بیان میں کوئی اختلاف نہیں یا مسوداتی تغیرات نہیں کہتا کہ کسی دوسرے دیوتا سے اُمید ہے، محمد کے ابتدائی سوانح نگاروں نے لکھا جو قرآن میں ہے۔ پس اگر قرآن کی نسبت بائبل میں متنی مسوداتی مسائل کی کم اہمیت ہے تو تم روایات کی پیروی کرنا چاہتے ہو، پھر ابتدائی اور بہت قابل اعتبار روایات کی پیروی کرو، اور خدا پر بھروسہ کرو جو اپنے پیغام کے معنی کو محفوظ کر سکتا ہے۔